
دعائے انس کی فضیلت سے متعلق دو روایات ہیں
نمبر 1
دعاء انس کی برکت سے حجاج بن یوسف کا غصہ ختم
عمر بن ابان کہتے ہیں کہ (انتہائی سفاک حاکم وقت)حجاج بن یوسف نے مجھے انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو لانے کے لئے بھیجا، اور میرے ساتھ کچھ گھڑ سواراور کچھ پیادہ فوج تھی، ہم ان کو لے کرحجاج بن یوسف کے پاس پہونچے، تو ان سے حجاج نے پوچھا: کیا تو انس بن مالک ہے؟ کہا: ہاں ، حجاج نے کہا: کیا تو وہ شخص ہے جو مجھے برا بھلا کہتا ہے ؟ انس بن مالکؓ نے جواب دیا : جی ہاں ! یہ تو مجھ پر اور تمام مسلمانوں پر واجب ہے ؛ کیونکہ تو اسلام کا دشمن ہے ، تو نے اللہ کے دشمنوں کی عزت افزائی کی ہے اور اللہ تعالی کے دوستوں اور ولیوں کو ذلیل کیا ہے ، حجاج نے کہا کہ کیا تمہیں معلوم ہے کہ میں نے تمہیں کیوں بلایا ہے ؟ فرمایا : نہیں معلوم ہے ، حجاج نے کہا : میں تجھے بری طرح قتل کرنا چاہتا ہوں، حضرت انس بن مالکؓ نے فرمایا: اگر میں تیری بات کے صحیح ہونے کا یقین رکھتا تو اللہ کو چھوڑ کر تیری عبادت کرتا اور رسول اللہ ﷺ کا بات میں شک کرتا ، مجھے رسول اللہ ﷺ کی بات پر کامل یقین ہے ، آپ ﷺ نے مجھے ایک دعا سکھائی تھی اور فرمایا تھا: ’’جو شخص صبح کے وقت یہ دعا پڑھ لے گاکوئی شخص اس کو تکلیف پہونچانے پر قادر نہیں ہوگااور نہ کسی کو اس پر قدر ت حاصل ہوسکتی ہے‘‘اور میں آج صبح یہ دعا پڑھ چکا ہوں۔حجاج نے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ آپ مجھے وہ دعا سکھادیں ، انس بن مالک ؓ نے فرمایا : تو اس کا اہل نہیں ہے ، حجاج نے کہا : ان کا راستہ چھوڑ دو یعنی ان کو جانے دو،جب حضرت انس وہاں سے نکلے تو دربان نے حجاج سے کہا : اللہ امیر کی اصلاح کرے ، آپ تو کئی دنوں سے ان کی تلاش میں تھے، جب آپ نے ان کو پالیا تو چھوڑدیا؟ حجاج نے کہا: اللہ کی قسم میں نے ان کے کندھے پر دو شیر دیکھے، جب بھی میں ان سے گفتگو کرتا تھا تو وہ میری طرف لپکتے تھے،تو اگر میں ان کے ساتھ کچھ کرتا تو میرا کیا حال ہوتا۔جب حضرت انس ؓ کی وفات کا وقت قریب آیا تو انہوں نے وہ دعا اپنے بیٹے کو سکھائی ۔
نمبر 2
علامہ ابن عساکر رحمہ اللہ نے تاریخ دمشق:( ج، 52 ص 259 ط، دارالفکر، بیروت ) میں روایت کیا ہے کہ ایک دن حضرت انس رضی اللہ عنہ حجاج بن یوسف ثقفی کے پاس بیٹھے تھے۔ حجاج نے حکم دیا کہ ان کو مختلف قسم کے چار سو گھوڑوں کا معائنہ کرایا جائے۔ حکم کی تعمیل کی گئی، حجاج نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے کہا: فرمائیے ! اپنے آقا یعنی جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھی اس قسم کے گھوڑے اور ناز و نعمت کا سامان کبھی آپ نے دیکھا؟ فرمایا: بخدا ! یقینا میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بدرجہا بہتر چیزیں دیکھیں اور میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: جن گھوڑوں کی لوگ پروَرِش کرتے ہیں، ان کی تین قسمیں ہیں، ایک شخص گھوڑا اس نیت سے پالتا ہے کہ حق تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرے گا اور دادِ شجاعت دے گا۔ اس گھوڑے کا پیشاب، لید، گوشت پوست اور خون قیامت کے دن تمام اس کے ترازوئے عمل میں ہوگا۔ اور دُوسرا شخص گھوڑا اس نیت سے پالتا ہے کہ ضرورت کے وقت سواری کیا کرے اور پیدل چلنے کی زحمت سے بچے (یہ نہ ثواب کا مستحق ہے اور نہ عذاب کا)۔ اور تیسرا وہ شخص ہے جو گھوڑے کی پروَرِش نام اور شہرت کے لئے کرتا ہے، تاکہ لوگ دیکھا کریں کہ فلاں شخص کے پاس اتنے اور ایسے ایسے عمدہ گھوڑے ہیں، اس کا ٹھکانا دوزخ ہے۔ اور حجاج! تیرے گھوڑے اسی قسم میں داخل ہیں۔ حجاج یہ بات سن کر بھڑک اُٹھا اور اس کے غصے کی بھٹی تیز ہوگئی اور کہنے لگا: اے انس! جو خدمت تم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کی ہے اگر اس کا لحاظ نہ ہوتا، نیز امیرالموٴمنین عبدالملک بن مروان نے جو خط مجھے تمہاری سفارش اور رعایت کے باب میں لکھا ہے، اس کی پاسداری نہ ہوتی تو نہیں معلوم کہ آج میں تمہارے ساتھ کیا کر گزرتا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: خدا کی قسم! تو میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا اور نہ تجھ میں اتنی ہمت ہے کہ تو مجھے نظرِ بد سے دیکھ سکے۔ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے چند کلمات سن رکھے ہیں، میں ہمیشہ ان ہی کلمات کی پناہ میں رہتا ہوں اور ان کلمات کی برکت سے مجھے نہ کسی سلطان کی سطوت سے خوف ہے، نہ کسی شیطان کے شر سے اندیشہ ہے۔ حجاج اس کلام کی ہیبت سے بے خود اور مبہوت ہوگیا۔ تھوڑی دیر بعد سر اُٹھایا اور (نہایت لجاجت سے) کہا: اے ابو حمزہ! وہ کلمات مجھے بھی سکھادیجئے! فرمایا: تجھے ہرگز نہ سکھاوٴں گا، بخدا! تو اس کا اہل نہیں۔ پھر جب حضرت انس رضی اللہ عنہ کے وصال کا وقت آیا، آبان جو آپ رضی الله عنہ کے خادم تھے، حاضر ہوئے اور آواز دی، حضرت رضی الله عنہ نے فرمایا: کیا چاہتے ہو؟ عرض کیا: وہی کلمات سیکھنا چاہتا ہوں جو حجاج نے آپ رضی الله عنه سے چاہے تھے مگر آپ رضی الله عنه نے اس کو سکھائے نہیں۔ فرمایا: ہاں! تجھے سکھاتا ہوں، تو ان کا اہل ہے۔ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دس برس خدمت کی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال اس حالت میں ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے راضی تھے، اسی طرح تو نے بھی میری خدمت دس سال تک کی اور میں دُنیا سے اس حالت میں رُخصت ہوتا ہوں کہ میں تجھ سے راضی ہوں۔ صبح و شام یہ کلمات پڑھا کرو، حق سبحانہ وتعالیٰ تمام آفات سے محفوظ رکھیں گے۔
دعائے انس کے مختلف الفاظ روایات میں موجود ہیں سب کو جمع کر کے یہ دعا بنتی ہے اور اسی کا اہتمام کرنا چاہیے
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
بِسْمِ اللّٰهِ وَ بِاللّٰهِ، بِسْمِ اللّٰهِ خَيْرِ الْاَسْمَاءِ، بِسْمِ اللّٰهِ الَّذِىْ لَا يَضُرُّ مَعَ اسْمِهٖ شَیْءٌ فِی الْاَرْضِ وَلَا فِی السَّمَاءِ. بِسْمِ اللّٰهِ افْتَتَحْتُ وَ بِاللّٰهِ خَتَمْتُ وَ بِهٖ اٰمَنْتُ، بِسْمِ اللّٰهِ اَصْبَحْتُ وَ عَلَی اللّٰهِ تَوَكَّلْتُ، بِسْمِ اللّٰهِ عَلٰى قَلْبِىْ وَ نَفْسِىْ، بِسْمِ اللّٰهِ عَلٰى عَقْلِىْ وَ ذِهْنِىْ، بِسْمِ اللّٰهِ عَلٰى اَهْلِىْ وَ مَالِىْ، بِسْمِ اللّٰهِ عَلٰى مَا اَعْطَانِىْ رَبِّىْ، بِسْمِ اللّٰهِ الشَّافِىْ، بِسْمِ اللّٰهِ الْمُعَافِىْ، بِسْمِ اللّٰهِ الْوَافِىْ، بِسْمِ اللّٰهِ الَّذِىْ لَا يَضُرُّ مَعَ اسْمِهٖ شَیْءٌ فِی الْاَرْضِ وَلَا فِی السَّمَاءِ وَ هُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ، هُوَ اللّٰهُ اَللّٰهُ رَبِّىْ لَا اُشْرِكُ بِهٖ شَيْئًا، اَللّٰهُ اَكْبَرُ، اَللّٰهُ اَكْبَرُ، اَللّٰهُ اَكْبَرُ ، اَللّٰهُ اَكْبَرُ ، وَ اَعَزُّ وَ اَجَلُّ مِمَّا اَخَافُ وَ اَحْذَرُ. اَسْاَلُكَ اللّٰهُمَّ بِخَيْرِكَ مِنْ خَيْرِكَ الَّذِىْ لَا يُعْطِيْهِ غَيْرُكَ، عَزَّ جَارُكَ وَ جَلَّ ثَنَاؤُكَ وَلَا اِلٰهَ غَيْرُكَ. اَللّٰهُمَّ اِنِّىْ اَعُوْذُ بِكَ مِنْ شَرِّ نَفْسِىْ، وَ مِنْ شَرِّ كُلِّ سُلْطَانٍ وَّ مِنْ شَرِّ كُلِّ شَيْطَانٍ مَّرِيْدٍ، وَ مِنْ شَرِّ كُلِّ جَبَّارٍ عَنِيْدٍ، وَ مِنْ شَرِّ كُلِّ قَضَاءِ سُوْءٍ ، وَ مِنْ شَرِّ كُلِّ دَابَّةٍ اَنْتَ اٰخِذٌ بِنَاصِيَتِهَا، اِنَّ رَبِّیْ عَلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ، وَ اَنْتَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ حَفِیْظٌ
﴿اِنَّ وَلِيِّیَ اللّٰهُ الَّذِیْ نَزَّلَ الْكِتَابَ وَهُوَ يَتَوَلَّى الصَّالِحِيْنَ﴾
اَللّٰهُمَّ اِنِّىْ اَسْتَجِيْرُ بِكَ، وَ اَحْتَجِبُ بِكَ مِنْ كُلِّ شَیْءٍ خَلَقْتَهٗ، وَ اَحْتَرِسُ بِكَ مِنْ جَمِيْعِ خَلْقِكَ، وَ كُلِّ مَا ذَرَاْتَ وَبَرَاْتَ وَ اَحْتَرِسُ بِكَ مِنْهُمْ، وَاُفَوِّضُ اَمْرِىْ اِلَيْكَ، وَ اُقَدِّمُ بَيْنَ يَدَیَّ فِیْ يَوْمِیْ هٰذَا، وَ لَيْلَتِىْ هٰذِهٖ، وَ سَاعَتِىْ هٰذِهٖ، وَ شَهْرِىْ هٰذَا.
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ، اَللّٰهُ الصَّمَدُ، لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُوْلَدْ، وَلَمْ يَكُنْ لَّهٗ كُفُوًا اَحَدٌ﴾عَنْ اَمَامِىْ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
﴿قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ، اَللّٰهُ الصَّمَدُ، لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ، وَلَمْ يَكُنْ لَّهٗ كُفُوًا اَحَدٌ﴾مِنْ خَلْفِیْ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ، اَللّٰهُ الصَّمَدُ، لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ، وَلَمْ يَكُنْ لَّهٗ كُفُوًا اَحَدٌ﴾عَنْ يَّمِيْنِىْ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ، اَللّٰهُ الصَّمَدُ، لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ، وَلَمْ يَكُنْ لَّهٗ كُفُوًا اَحَدٌ﴾عَنْ شِمَالِىْ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ، اَللّٰهُ الصَّمَدُ، لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ، وَلَمْ يَكُنْ لَّهٗ كُفُوًا اَحَدٌ﴾مِنْ فَوْقِیْ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ، اَللّٰهُ الصَّمَدُ، لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ، وَلَمْ يَكُنْ لَّهٗ كُفُوًا اَحَدٌ﴾مِنْ تَحْتِیْ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَللّٰهُ لَا اِلٰهَ اِلَّا هُوَ الْحَیُّ الْقَيُّوْمُ، لَا تَاْخُذُهٗ سِنَةٌ وَّلَا نَوْمٌ، لَهٗ مَا فِی السَّمٰوَاتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ، مَنْ ذَا الَّذِیْ يَشْفَعُ عِنْدَهٗ اِلَّا بِاِذْنِهٖ، يَعْلَمُ مَا بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ، وَلَايُحِيْطُوْنَ بِشَیْءٍ مِّنْ عِلْمِهٖ اِلَّا بِمَا شَاءَ، وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضَ وَلَا يَئُوْدُهٗ حِفْظُهُمَا، وَهُوَ الْعَلِیُّ الْعَظِيْمُ.
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
شَهِدَ اللّٰهُ اَنَّهٗ لَا اِلٰهَ اِلَّا هُوَ وَالْمَلَآئِكَةُ وَاُولُو الْعِلْمِ قَائِمًا بِالْقِسْطِ، لَا اِلٰهَ اِلَّا هُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ.(7 بار)
وَنَحْنُ عَلىٰ مَا قَالَ رَبُّنَا مِنَ الشَّاهِدِيْنَ﴿فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِیَ اللّٰهُ لَا اِلٰهَ اِلَّا هُوَ، عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَهُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيْمِ﴾ (7 بار)




