Categories
ذاتی تحاریر

مری بائیکاٹ مہم، ہوٹل مافیا اور اہلیان مری

بائیکاٹ مری مہم اور اہلیان مری
تحریر: محمد معوذ جبلی
کچھ روز قبل جب سوشل میڈیا پر بائیکاٹ مری کے ہیش ٹیگ کے ساتھ مری ہوٹل مافیا کے خلاف احتجاج شروع ہوا تو باوجود مری والا ہونے کے مجھے بھی خوشی ہوئی اور میں نے بھی پوسٹ لگائی _ لیکن اب تو حالت ہی بدل گئی ہے ہوٹل مافیا کے خلاف شروع ہونے والا احتجاج اب سب مری والوں کے خلاف احتجاج میں بدل گیا ہے _ پہلے پوری اہلیان مری کا تمسخر اڑایا گیا انہیں گالیاں دی گئیں اور اب حالت یہ ہے کہ کل پوسٹ دیکھی ایک صاحب کی لکھتے ہیں کہ ہمیں پورے ملک میں مری کے لوگوں کا بائیکاٹ کرنا چاہیے اور کمنٹس میں راولپنڈی کے ایک صاحب اس پوسٹ کو عملی جامہ پہنانے کے لیے لکھتے ہیں کہ کل ہی میں اپنے مری والے کرائے دار سے دکان خالی کراتا ہوں یہ لوگ انسانوں کے ساتھ رہنے کے قابل نہیں ہیں
آپ ایسا کریں #boycottmurree ہیش ٹیگ پر کلک کریں اور پوسٹیں پڑھنا شروع کردیں
اس کے بعد مری کہ بارے میں جو خاکہ آپ کے ذہن میں بنے گا وہ کچھ یوں ہوگا کہ
“مری والے انتہائی جاہل ،جنگلی ، لالچی اور خونخوار لوگ ہیں. انہیں بات کرنے کا سلیقہ نہیں ہے اگر آپ مری جاتے ہیں تو وہاں آپ کی عزت محفوظ نہیں لڑکیوں سے بدتمیزی کی جاتی ہے حتی کہ اغوا تک کرلیا جاتا ہے _ وہاں کی ہر چیز انتہائی گندی ہے صفائی ستھرائی کا بالکل خیال نہیں _ وہاں آپ ہوٹل میں آرڈر کچھ دیتے ہیں اور سرو کچھ اور کیا جاتا ہے اور جو آپ کے سامنے رکھ دیا جائے آپ کو وہی کھانا ضروری ہے اگر ذرا سا اعتراض کیا تو آپ گالیاں دی جائیں گی مزید چوں چراں پر سب مری والے اکٹھے ہوکر مارنا شروع کردیں گے اور طرفہ تماشہ یہ کہ ہر چیز چار سو گنا مہنگی ہے “
تو جناب من یہ وہ خاکہ ہے جو ہیش ٹیگ دیکھنے کے بعد آپ کے ذہن میں آتا ہے میرا مشورہ ہے ہیش ٹیگ ضرور دیکھیں
اس کے بعد اگر آپ نے کبھی مری کی سیر کی ہے تو وہ منظر ذہن میں لائیں کیا واقعی اتنی ہی بری حالت تھی جب آپ نے مری گھوما تھا؟؟؟
اگر آپ نے مری نہیں دیکھا مگر اللہ رب العزت نے آپ کو عقل و شعور کی دولت بخشی ہے تو ذرا دماغ پر زور ڈال کر بتائیں کہ اگر اتنے ہی برے حالات ہیں تو راولپنڈی اسلام آباد بلکہ لاہور فیصل آباد تک کے لوگ ہر ویک اینڈ پر مری کا رخ کیوں کرتے ہیں اسلام آباد موٹر وے سے آپ معلوم کرسکتے ہیں ہفتہ اتوار اسلام آباد کی طرف آنے والی گاڑیوں کا رش کتنا ہوتا ہے _ دور دراز کے لوگوں کے بارے میں تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ شہرت سن کر گئے اور پھنس گئے لیکن کیا راولپنڈی اسلام آباد کے لوگ اتنے بے غیرت ہیں کہ تفریح کی خاطر تذلیل قبول کرلیتے ہیں صرف اتنا ہی نہیں اپنے ہر مہمان کو مری ضرور دکھانے لے جاتے ہیں_
قصہ مختصر ہیش ٹیگ کو تفصیل سے دیکھنے کے بعد مجھے تین بنیادی اعتراض نظر آئے ہیں
پہلا یہ کہ ہوٹل مافیا کا رویہ انتہائی توہین آمیز اور جارحانہ ہے
دوسرا یہ کہ وہاں ہر چیز مہنگی اور غیر معیاری ہے
اور تیسرا یہ کہ پارکنگ مافیا وہاں بہت لوٹ مار کر رہا ہے
اس کے بعد ان کا ایک مطالبہ ہے کہ مری کے سنجیدہ لوگ سامنے آئیں اور ان کو کنٹرول کریں _
اس سے پہلے کہ میں مری کی نمائندگی کروں آپ کو کچھ زمینی حقائق کو مدنظر رکھنا ضروری ہے
مری ایک تحصیل ہے جس کا کل رقبہ 434 مربع کلو میٹر ہے اور اٹھانوے کی مردم شماری کے مطابق
مری کی کل آبادی ایک لاکھ 76 ہزار سے زیادہ ہے اس میں ا ایک لاکھ پچپن ہزار دیہی علاقوں میں رہتی ہے صرف دس بارہ ہزار مری شہر میں رہتے ہیں باقی راولپنڈی اسلام آباد میں رہتے ہیں
نیٹ پر تازہ صورتحال نہ ہونے کی وجہ سے پرانی ہی لکھ دی ہے لیکن اس سے بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ آبادی کا تناسب کیا ہے اور کہاں رہائش پذیر ہے _
لگے ہاتھوں آپ یہ بھی جان لیں مری میں انٹری کے دو راستے ہیں ایک پرانا مری روڈ جس پر سیاح کم ہی جاتے ہیں دوسرا نئی ہائی وے جیسے موٹر وے بھی کہا جاتا ہے
مری سے نکلنے کے بھی دو راستے ہیں ایک کوہالہ جو کشمیر سے ملتا ہے دوسرا گلیات والا راستہ جو ایبٹ آباد لے جاتا ہے
ہماری اسی فیصد آبادی کو یہ بھی نہیں پتا گلیات مری سے الگ ہے _
مری میں آنے والے سیاح نئی ہائی وے کے ذریعہ آتے ہیں بیچ میں کسی ایک ہوٹل میں سٹے کرتے ہیں اور پھر بچے ساتھ ہوں تو سوزو پارک رکتے ہیں ورنہ سیدھا مال روڈ پہنچ جاتے ہیں پھر تین چار مشہور پکنک پوائنٹ دیکھ کر واپسی کرتے ہیں ہوٹل میں ٹہرنا ہو تو مال روڈ کو ترجیح دی جاتی ہے اگر سیاح زیادہ سیانے ہوں تو وہ واپسی کے لیے گلیات کا راستہ اختیار کرتے ہیں اور خوبصورت راستوں سے گزرتے ایبٹ آباد پہنچتے ہیں اور پھر وہاں سے راولپنڈی آجاتے ہیں کافی تعداد میں سیاح کوہالہ کا بھی رخ کرتے ہیں جسکے لیے پورا مری کراس کرنا پڑتا ہے _
ان زمینی حقائق کو جاننے بعد اب مری کے سنجیدہ حلقوں کا مؤقف سن لیں
اول تو یہ کہ مری پاکستان کا علاقہ ہے اور یہاں کے لوگوں کا مذہب سے لگاؤ زیادہ ہے جس پر انہیں بجا طور پر فخر ہے لہذا یورپی تہذیب کو وہاں اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا ہے مال روڈ پر جو فحاشی اور عریانی نظر آتی ہے اسے مری کی آبادی بالکل پسند نہیں کرتی اسی وجہ سے وہ لوگ اس طرف کا زیادہ رخ بھی نہیں کرتے مہمانوں کو بھی باقی مری گھمادیتے ہیں پر وہاں لے جانے میں ٹال مٹول کرتے ہیں _
دوسری بات یہ کہ ہوٹل مافیا بھی آدھے سے زیادہ مری کا ہے ہی نہیں وہ اور علاقوں کے لوگ ہیں جو وہاں ملازمت یا کاروبار کر رہے ہیں مری کے لوگ سیاحوں سے زیادہ سے زیادہ کمائیں تو وہ بھی صرف اتنا ہے کہ اپنے بنگلے کرائے پر دیتے ہیں جو کہ ہوٹل مافیا کو بالکل پسند نہیں اور اس کے لیے انہوں نے کافی سخت قوانین بنوادیے ہیں
تیسری بات یہ کہ جو سیاح مری کا رخ کرتے ہیں وہ ہر قسم کے ہوتے ہیں اچھے بھی برے بھی اس میں اوباش لوگ بھی ہوتے ہیں مال روڈ کے ازدحام میں ہر بے غیرتی کو مری والوں کی طرف منسوب کرنا انصاف نہیں ہے.
لڑائی کی ایک بڑی وجہ وہاں کی مہنگائی ہے وہ لوگ چیز مہنگی بتاتے ہیں پھر توتو میں میں ہوتی ہے اور جب بات بڑھے تو ہاتھا پائی تک بھی نوبت پہنچ جاتی ہے
لیکن یہ مہنگائی صرف مری کا مسئلہ نہیں پوری دنیا کا ہے ہر وہ جگہ جہاں جانا یادگار میں شامل کرنے کے قابل ہو وہ جگہ مہنگی ہی ہوتی ہے یقین نہیں آتا تو عمرے پر جانے والوں سے مکہ ٹاور کی مہنگائی معلوم کرلیجیے گا اور پھر اسے کنٹرول کرنا حکومت وقت کی ذمہ داری ہے نہ کہ اہل علاقہ کی اس کے خلاف احتجاج کیجیے ٹریفک کا مسئلہ بھی لڑائی کا سبب ہے مری ایک پہاڑی علاقہ ہے جو صرف سولہ ہزار گاڑیوں کو بیک وقت چلنے کی جگہ دے سکتا ہے اور چار ہزار گاڑیوں کو پارک کیا جاسکتا ہے بدقسمتی سے پاکستان ان ممالک میں ہے جہاں گاڑیاں کم کرنے پر کوئی توجہ نہیں گاڑیوں کی کثرت اور گرمیوں اور عید کی چھٹیوں کے ایک ساتھ آنے کی وجہ سے مری میں ٹریفک کا ازدحام بے پناہ ہوجاتا ہے اور سیاحوں کا جہاں دل کرتا ہے وہان گاڑی لے جاتے ہیں (ہیش ٹیگ میں بھی ایک ویڈیو آپ کو مل جائے گی ) اس وجہ سے بھی لڑائی ہوتی ہے ایک مسئلہ یہ بھی کہ کشمیر کا راستہ بھی یہی ہے کشمیر کی تمام ٹریفک نے بھی یہی سے گزرنا ہوتا ہے…
حاصل کلام یہ کہ مری کی اصل آبادی سیاحت سے نہیں کماتی وہ لوگ پورے پاکستان بلکہ باہر ممالک میں بھی پھیلے ہیں _ ہوٹل مافیا کی اکثریت مری کی نہیں _ سیاح پورا مری نہیں مری کا صرف تھوڑا سا علاقہ دیکھتے ہیں _ مری کی مقامی آبادی بے حیائی کو ناپسند کرتے ہیں اس لیے زیادہ تر سیاحت والے مقامات سے لاتعلق رہتی ہے _ مری ایک محدود علاقہ ہے سیزن میں سیاحوں کی کثرت کی وجہ سے مری کی اصل آبادی جو روزگار کے سلسلہ میں روز جڑواں شہروں کا رخ کرتی ہے کو گھروں سے دو دو گھنٹہ پہلے نکلنا پڑتا ہے اور واپسی بھی تاخیر سے ہوتی ہے_ دو سال پہلے میرے ساتھ بھی یہی ہوا تھا مجھے واپسی کے لیے نکلنا تھا تو معلوم ہوا ایک لاکھ گاڑی مری میں داخل ہوچکی ہے لہذا راستے بند ہیں _ مری میں ہسپتال کے ناقص نظام کی وجہ سے مریضوں کو اسلام آباد راولپنڈی لایا جاتا ہے ایسے میں ٹریفک کا مسئلہ کتنے سنگین مسائل کو جنم دیتا ہے آپ خود تصور کرسکتے ہیں _ آپ راولپنڈی کے مقامی اخبارات میں مری کے مسائل پڑھ سکتے ہیں _ ایک عرصہ سے یہ مطالبہ کیا جارہا ہے حکومت کو مری کے علاوہ اور بھی سیاحتی مقام بنانے چاہیں تاکہ سیاحوں کو کنٹرول کیا جاسکے _ سیاحوں کی وجہ سے ہوئی مہنگائی سے مری کی عام عوام بھی تنگ ہے
بائیکاٹ مہم میں ایسے لوگ بھی شامل جو نون لیگ کا غصہ مری پر نکال رہے ہیں _
الحمد للہ ہم مری کے لوگوں کو اپنی صفائیاں دینے کی ضرورت نہیں ہے آپ مری کے دیہی علاقوں میں آکر ہمیں مل لیں یا پھر پورے پاکستان میں پھیلے مری کے لوگوں سے تعلق بنالیں آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ مری والے کتنے سخی، خوش اخلاق اور عمدہ صفات کے مالک ہیں
ہمارا ایک ہی اصول ہے عزت دو عزت لو
اعلی گاڑیوں میں بیٹھ کر عام انسانوں کو کیڑے مکوڑے سمجھنے والی مخلوق سے ہم مرعوب نہیں ہوتے _
پکنک پوائنٹس کے ہوٹل مافیا کے پاس نہ ہم خود جاتے ہیں نہ اپنے مہمانوں کو وہاں ٹہراتے ہیں اس لیے ہمیں سوشل میڈیا سے ہی پتا چلا ہے وہاں کیا ہورہا ہے
ہمارا حکومت سے بھی مطالبہ ہے کہ مری کی ٹریفک کامسئلہ حل کیا جائے اور مری کی بدنامی کا سبب بننے والے عناصر کا قلع قمع کیا جائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *